پندرھویں شب کی فضیلت ( شب برات )

شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو عبادت کرنا بہت ہی فضیلت کا باعث ہے۔ اس شب کو شب قدر اور شب برات بھی کہا جاتا ہے۔ اس شب کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو اللہ تعالی آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس شب کو اپنے بندوں کے لیے بے شمار دروازے اپنی رحمت کے کھول دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو آج کی رات مجھ سے بخشش کی طلب کرے اور میں اس کے گناہوں کو بخش دوں ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اُسے رزق دوں اور ہے کوئی مصائب و آفات میں مبتلا کہ میں اس کی مشکلات آسان کردوں تا کہ اس کے مصائب ختم ہو جائیں۔ حتی کہ یونہی لوگوں پر رحمتوں کی یہ منادی جاری رہتی ہے کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ )

شعبان المعظم کی پندرھویں شب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ابن الحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ مجھے حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس کسی کام کی غرض سے بھیجا میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کی کہ جلدی کیجئے میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) پندرہ شعبان کی شب کے بارے میں گفتگو فرمارہے تھے۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے مجھ سے فرمایا اے انس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بیٹھ میں تجھے شعبان کی پندرھویں شب کی بات سناؤں ایک مرتبہ یہ رات میری باری کی تھی ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور لیٹ گئے۔ رات کو میں بیدار ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نہ پایا میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ شاید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی اور بی بی کے پاس تشریف لے گئے ہیں، میں اپنے گھر سے باہر نکلی جب میں مسجد سے گزری تو میرا پاؤں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ چھو گیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور فرمارہے تھے اے اللہ ! میرے جسم اور دل نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرا ہاتھ ہے میں نے اس ہاتھ سے کبھی اپنے جسم کو گناہ سے آلودہ نہیں کیا اے پروردگار ! تجھ سے ہی ہر عظیم کام کی اُمید کی جاتی ہے میرے بڑے گناہوں کو بخش میرے اس چہرے نے تجھے سجدہ کیا جسے تو نے پیدا فرمایا اسے صورت بخشی اس میں کان اور آنکھ پیدا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اُٹھا کر فرمایا یا اللہ ! مجھے ڈرنے والا دل عطا فرما جو شرک سے بری اور پاک ہو کافر اور بد بخت نہ ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر گئے اور میں نے سنا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت فرمارہے تھے یا اللہ ! میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں تیرے عفو کے طفیل تیرے عذاب سے اور تیرے طفیل تیری گرفت سے پناہ مانگتا ہوں میں تیری مکمل تعرف نہیں کرسکتا جیسا کہ تونے اپنی تعریف کی ہے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو کچھ میری بھائی حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا میں اپنا چہرہ اپنے آقا کے لیے خاک آلود کرتا ہوں اور میرا آقا اس لائق ہے کہ اس کے آگے چہرہ خاک آلود کیا جائے۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اُٹھایا تو میں نے عرض کی یارسول اللہ صل الله علی علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہاں تشریف فرما ہیں اور میں وہاں تھی، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اے حمیرا کیا تو نہیں جانتی کہ یہ پندرہ شعبان کی شب ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ بنو کلب کے ریوڑوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے لیکن چھ آدمی اس رات بھی محروم رہتے ہیں شرابی والدین کا نا فرمان عادی زانی، چغل خور قاطع رحم اور چنگ ور باب بجانے والا ایک روایت میں رباب بجانے والے کی جگہ مصور کا لفظ ہے۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نصف ماہ شعبان المعظم کی رات کو میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! اپنا سر انور اُٹھائیے اور آسمان کی طرف دیکھئے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سی شب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ شب ہے کہ جس شب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جو مشرک نہیں ہوتا، جادوگر کا ہن، سود خور زانی اور عادی شرابی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اُس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک وہ تو بہ نہ کرلیں۔ پھر جب رات کا چوتھائی پہر گزر گیا تو جبرئیل علیہ السلام پھر تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنا سر اقدس اٹھائیے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور ملاحظہ فرمایا کہ بہشت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور پہلے دروازے پر ایک فرشتہ پکار رہا ہے خوشخبری ہو اُس شخص کے لیے جس نے رات کو رکوع کیا دوسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ پکار کر کہہ رہا تھا، خوشخبری ہو اُس کے لیے جس نے اس شب میں سجدہ کیا، تیسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ پکار رہا تھا، خوشخبری ہو اس کے لیے جس نے اس رات دعا کی چوتھے دروازے پر ایک اور فرشتہ آواز دے رہا تھا کہ خوشخبری ہو ان لوگوں کے لیے جو اس رات میں ذکر کرنے والے ہیں ۔ پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ یہ ندا دے رہا تھا خوشخبری ہو اس کے لیے جو اس شب میں اللہ تعالی کے خوف سے رویا چھٹے دروازے پر فرشتہ ندا کر رہا تھا اس شب میں تمام مسلمانوں کے لیے خوشی ہو ساتویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا، کیا کوئی ہے مانگنے والا کہ اس کی خواہش اور حاجت پوری کی جائے ؟ آٹھویں دروازے پر فرشتہ یہ ندا کر رہا تھا کہ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں، حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اے جبرئیل (علیہ السلام ) یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ رات شروع ہونے سے طلوع فجر تک اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ! اس رات میں جہنم سے خلاصی پانے والوں کی تعداد بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر ہو گی۔






 پروردگار عالم کے فضل ، کرم اور مہربانی سے ، انسانی طاقت اور بساط کے
 مطابق  احتیاط کی گئی ہے بشری تقاضے سے اگر کوئی غلطی نظر آئے یا لفظ درست نہ ہوں تو از راہ کرم مطلع فرما دیں۔ ان شاء اللہ عزوجل جلد از جلد میں ٹھیک کر دوں گا۔